حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نقل :فرعون کے دربار میں ایک مسخرہ تھا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نقل کیا کرتاتھا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چونکہ دہکتاہوا کوئلہ کا انگارہ منہ میں رکھا تھا اس کی وجہ سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک میں لکنت تھی ۔وہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نقل کرتاتھا اور ان ہی کی طرح بولتا تھا۔وہ شخص تو فرعون کو اور دربار کے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نقل کرتاتھا لیکن میرے اللہ کو اس شخص کی یہ ادا بہت پسند آئی اور جب فرعون کو اور اس کی فوج کوجوکہ تقریباًچودہ سے اٹھا رہ لاکھ کی تھی ان سب کو میرے اللہ نے غرق کیا تو ان سب میں سے اس شخص کو جوکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نقل کرتاتھااسے بچالیا۔
نقل پر مغفرت:کتابوں میں لکھا ہے کہ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے پوچھا کہ:’’ الہٰی یہ کون ہے؟‘‘ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا:’’اے موسیٰ تو میرا نبی ہے۔مجھے تجھ سے محبت ہے اور تیری جو نقالی کرنے والا ،تیری نقل کرنے والاہے مجھے اس سے بھی محبت ہوگئی ہے۔یہ تیری نقل کرتا تھا اس لیے میں نے اس کو بچا دیا ہے۔روایات میں آتاہے کہ اللہ پاک جل شانہٗ نے اس کو ہدایت دی اور وہ شخص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غلاموں میں شامل ہوگیا۔
؎اے جوش ِجنوں بیکار نہ رہ کچھ خاک اڑا ویرانوں کی
دیوانہ بھی بننا مشکل نہیں صورت تو بنا دیوانوں کی
میرے محترم دوستو! میرا اللہ قادر ہے اس بات پر کہ وہ ایک پل میں دل کی دنیا کو بدل دے۔اللہ والو! ہم بھی دیوانوں جیسی صورت تو بنالیں۔
عمل میں توجہ نہ کرنا:میرے پاس ایک زمیندار صاحب آئے ان کا کوئی مسئلہ تھا ۔میں نے ان کو ایک وظیفہ پڑھنے کیلئے دیا۔انہوں نے کہا کہ میں خود تو نہیں پڑھ سکتا لیکن مسجد کے ایک امام صاحب ہیں میں ان سے پڑھوالیتاہوں۔میں نے اجازت دے دی۔مقررہ وقت کے بعد وہ زمیندار صاحب پھرآئے اور کہا کہ میرا مسئلہ تو حل نہیں ہوا،کوئی اور وظیفہ دے دیں؟میں نے ان سے کہا میںنے وظیفہ ٹھیک دیا ہے تمہارے پڑھنے میں کمی ہے۔وظیفے کو دیوانوں کی طرح پڑھو،پاگل ہوکر پڑھو۔ انشاء اللہ تمہارا کام ہوجائیگا۔
سفر میں مسکرانا:زمیندارصاحب قاری صاحب کے گھر گئے۔ قاری صاحب کو بلایا اور کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں! کہیں کام جانا ہے۔قاری صاحب نے بڑی گاڑی دیکھی اور خوش ہوئے کہ اتنا بڑاآدمی میرے گھر مجھے لینے آیاہے۔قاری صاحب نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے آسمان کی طرف دیکھا اور مسکرائے ۔ سفر کے وقت آسمان کی طرف دیکھنا اور مسکرانا آپ ﷺ کی سنت ہے۔قاری صاحب نے سفر کی دعا بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھی ۔گاڑی میں بیٹھے تو سامنے بندوق پڑی ہوئی تھی ۔قاری صاحب نے سوچا کہ بڑا آدمی ہے اپنی حفاظت کیلئے رکھی ہوگی۔
وظیفہ پڑھنے اور مانگنے میں فرق:سفر کرتے ہوئے وہ احباب آبادی سے دور جنگل میں پہنچے توزمیندار صاحب نے گاڑی روکی اور قاری صاحب کو کہا کہ گاڑی سے نیچے اتریں۔نیچے اترنے کے بعدزمیندار نے قاری صاحب پر بندوق تان لی اور کہاکہ:’’ کلمہ پڑھو میں نے تمہیں قتل کرنا ہے۔‘‘قاری صاحب تھر تھر کانپنے لگے اور پوچھا کہ: ’’میں نے کیا کیا ہے؟‘‘زمیندار نے کہا کہ: میںنے تجھے عمل پڑھنے کو دیاتھاتونے نہیں پڑھا اور میرا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ قاری صاحب نے کہا کہ میں نے پڑھا ہے۔زمیندار نے کہا نہیں!تونے نہیں پڑھا۔زمیندار نے کہا کہ میں نے بہت سے قتل کیے ہیں اورایسے بہت سے کیس مجھ پر بن چکے ہیں تیرے قتل کا بھی مجھ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔بس تو کلمہ پڑھ لے۔اب قاری صاحب نے اس کی منت سماجت شروع کی اور کہاکہ میں دوبارہ پڑھتا ہوں۔ زمیندار نے کہا :’’ٹھیک ہے میں تجھے ایک اور موقع دیتاہوںاگر تمہارے پڑھنے سے میرا مسئلہ حل نہ ہوا تومیں تمہیں قتل کردوںگا۔‘‘اب قاری صاحب نے وہی وظیفہ دوبارہ پڑھا کیونکہ قاری صاحب کو پتہ ہے کہ اگر زمیندار کاکام نہیں ہوا تو وہ مجھے قتل کردیںگے۔ جب وہی وظیفہ دیوانہ ہوکر اور پاگل ہوکر پڑھا تو زمیندار کا کام ہوگیاکیونکہ اس کے اندر بے کلی تھی ،بے قراری تھی ایک تڑپ تھی۔پہلے وظیفہ پڑھا تھا اب اللہ سے مانگاہے۔
حجاج بن یوسف کا فیصلہ:حجاج بن یوسف خانہ کعبہ کا طواف کررہاتھا۔اس نے دیکھا کہ ایک نابینا آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہاتھاکہ اللہ مجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرما دے۔ حجاج بن یوسف نے طواف کرنے کے بعد دیکھا تو اسے بینائی نہ ملی۔حجاج بن یوسف نے کہا کہ یہ دعا مانگ نہیں رہا بلکہ پڑھ رہاہے۔حجاج بن یوسف نے اپنے غلاموں سے کہا کہ اس نابینا شخص کو بلا کر لاؤ۔جب وہ نابینا شخص حاضر ہوا تو حجاج بن یوسف نے کہا کہ میرے طواف کے چھ باقی ہیں اگر طواف مکمل ہونے تک تجھے بینائی نہ ملی تو میں تیرا سر قلم کردوںگا۔حجاج بن یوسف بہت ظالم آدمی تھا ۔اس نابینا شخص نے حجاج بن یوسف کی بات سن کر پھر اللہ سے مانگا۔
نابینا کی بینائی:نابینا آدمی نے اللہ تعالیٰ سے بڑی تڑپ اور لگن سے مانگا۔اس نے اللہ سے زاری کی کہ یا اللہ مجھے آنکھیں دے دے ،بینائی عطا کردے ورنہ حجاج مجھے قتل کردے گا۔پہلے آنکھیں مانگ رہاتھااب اس نے سچی طلب سے مانگا،سچی تڑپ سے مانگا،رو رو کر مانگا۔اس کی اس تڑپ اور طلب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے بینائی عطا کردی۔
دعا کا ہوا میں تحویل ہونا:بعض مساجد میں امام صاحب نماز کے بعد دعا مانگتے ہیںوہ دعا نہیں ہوتی ایک لمبی چوڑی گردان ہوتی ہے۔ اور مقتدی پیچھے بڑے زور شور سے آمین کہہ رہے ہوتے ہیں۔اونچی آمین سے ان کی مراد ہوتی ہے کہ جلدی دعاکرو،جلدی دعا کرو۔اب اس آمین کہنے والے میں درد نہیں ہوتا،سوز نہیں ہوتا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں